
لیکن آج میں جب اپنے ملک کا جوانوں کو دیکھتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں کہ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں ک دنیا کیا سے کیا ہوجاےگی
آج کل ک جوانوں کا حال تو ملاحظہ کیجیے ذرا:
ایک کان میں بالی ہے، دوسرا کان خالی ہے
شرٹ پے ان کی جالی ہے، زبان پر ان کے گا لی ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے ، کے کیا یہی روشن خیالی ہے ؟
بقول اکبر الہ آبادی ..:
حکّام پی بیم ک گولے ہیں ور مولویوں پی گلی ہے
کالج نے یہ کیسے سانچوں میں لڑکوں کی طبیت دہلی ہے ؟
لڑکیوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں...
جینس کی پینٹ ہے، باب کاٹ بال ہیں ور آنکھوں میں؟ آنکھوں میں شرم و حیا کے بجاے نیلے پیلے لینس ہیں
..اکبر الہ آبادی کہتے ہیں:
حامیدہ چمکی نہ تھی جب انگلش سے بیگانہ تھی
آج ہے چراغ ا انجمن ، پہلے چراغ خانہ تھی
سو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں ک آج کل کے نوجوانوں نے روشن خیالی کا غلط مطلب اخذ کر لیا ہے . اسکا مطلب بے حیائی اور غلط روش اختیار کرنا نہیں بلکے ایمان ، اتحاد اور تنظیم جیسے اصولوں پر کاربند رہتے ہے زمانے کے ساتھ چلنا ہے . اگر ہمارے جوانوں نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو یقینن ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں...
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی،
نہ ہو جسکو خیال ، آپ اپنی حالت بدلنے کا
No comments:
Post a Comment