Fajr in Madina

عجیب بات ہے مدینے کی .... یہاں نمازوں کی پابندی خود بخود ہوجاتی ہے خاص طور پی فجر .. جیسے دل کرتا ہے رات  میں سو ہی نہیں  
صبح فجر کے وقت کی ٹھنڈی ہوایں مسجد نبوی (ص) کے صحن میں ایسے استقبال کرتی ہیں جیسے انسان کو انعام مل رہا ہے ... عام طور سے فجر کے وقت اٹھنا ویسے ہے گراں گزرتا ہے ... اقبال نے شکوہ میں اسی کا ذکر کچھ اسے کیا :
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمھیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمَضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو، یہی آئینِ وفاداری ہے؟
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
... لیکن مدینہ ایک الگ ہی دنیا ہے ... یہی دیکھیں کہ "ریاض الجنہ " مدینے میں ہے ... حالانکہ مکّہ کا مقام ایک طرف ... لیکن جنّت کا ٹکڑا مدینے میں ہے ... سنا ہے کعبہ کا پرنالہ ( میزاب رحمت ) بھی مدینے کی سمت ہی اشارہ کرتا ہے ... فجر کے بعد جنّت البقیع کے دروازے کھلے ہوتے ہیں جو وہاں جانا چاہیں وہاں چلے جایں اور جو مسجد قبا جانا چاہیں وہاں چلے جایں ... مسجد قبا میں دو رکعت نفل کا ثواب مقبول عمرے کے ثواب جتنا ہے ... رسول الله (ص) نے فرمایا

Abul-Abrad, the freed slave of Banu Khatmah, said that he heard Usaid bin Zuhair Ansari who was one of the Companions of the Prophet (ﷺ) narrating that the Prophet (ﷺ) said:
“One prayer in the Quba’ Mosque is like ‘Umrah.”


https://sunnah.com/urn/1287590

woh kia din hoga

وہ کیا دن ہوگا ؟

حرم سے کوئی 5 کلو میٹر کے فاصلے پر کدئی کے علاقے میں ایک پہاڑ موجود ہے ... زائرین اس پہاڑ کے دامن میں اکثر کھڑے نظر آتے ہیں ... کچھ لوگ اوپر بھی جا رہے ہوتے ہیں ... جہاں ایک غار ہے ... جی ہاں یہ ووہی غار ہے جس میں حضور (ص) نے حضرت ابو بکر (ر) کے ساتھ قیام فرمایا ...جس رات آپ (ص) نے ہجرت فرمائی... اور کفّار نے آپکو پکڑنے والوں کے لیے ١٠٠ سرخ اونٹ کا اعلان کیا ... تو لوگ اس پہاڑ کے دامن تک ٢ آدمیوں کے قدموں کے نشان تھے اسکے بعد صرف ایک آدمی کے قدموں کے نشانات ... کیونکہ پہاڑ کے اوپر ابو بکر (ر) حضور (ص) کو اپنے کندھے پر بیٹھا کر لے کر گئے تھے... اسی غار میں ابو بکر (ر) کے پاؤں پر سانپ نے ڈس لیا تھا اور تکلیف سے آپکے آنسوں حضور (ص) کے رخسار پر گر پڑے جس سے آپ (ص) نیند سے بیدار ہوے ..

آج بھی اس پہاڑ پی ہر انسان نہیں چڑھ سکتا ... اور ١٤٠٠ سال قبل ...

وہ کیا دن ہوگا ؟

حضرت عمر (ر) ابو بکر (ر) سے کہتے تھے ... میری ساری عمر کی نیکیاں للو ... بس وہ ایک رات مجھے دے دو جس میں تمھارے زانوں پر حضور (ص) سو گئے تھے ...

وہ کیا دن ہوگا ؟

اسی پہاڑ کے راستے میں دوران ہجرت آپ کے پیچھے سراقہ نے تعقب کیا اور آپکو جا لیا ... حضور (ص) کی دعا سے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا ... سراقہ نے آپ (ص) سے مافی مانگی اور واپس ہوگیا ... تھوڑی دور جا کر پھر ١٠٠ اونٹ کا لالچ اگیا .... جیسے ہی آپ (ص) کو پکڑنے واپس آیا ... گھوڑا پھر زمین میں دھنس گیا ... پھر معافی مانگی اور پلٹ گیا ... تیسری بار پھر لالچ میں آکر آپ (ص) کے پیچھے آیا .... تو اس بار حضور (ص) نے فرمایا... سراقہ تو ١٠٠ اونٹ کے لالچ میں ہے ...’’سراقہ بن مالک! جب تم کِسریٰ کے کنگن پہنو گے تو تمھیں کیسا لگے گا؟‘‘
... اب کی بار جب پلٹا تو دل بدل چکا تھا ... اور حضور (ص) کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے اور بس ایک یہی سوچ تھی ...

وہ کیا دن ہوگا جب کسرہ کے کنگن میرے ہاتھ میں ہوں گے ...

وہ کیا دن ہوگا...

وہ کیا دن ہوگا...

Ishq e Rasool

عجیب منظر ہے جنّت البقیع قبرستان کا ... یہاں اہل بیت بھی ہیں اور اہل ہدایت بھی... یہاں احد کے شہدا بھی ہیں اور ابن محمّد بھی ... ایک جانب امام حسن اور دوسری جانب ذالنورین بھی .... فجر کے وقت کا منظر ... ایک جانب سورج طلوع ہو رہا تھا ایک جانب چاند چمک رہا تھا... اور گنبد خضرا کا نظارہ .... جیسے ہمیں ١٤٠٠ سال پیچھے لے گیا ... سلام ہے ان عظیم ہستیوں پر جو یہاں دفن ہیں ... ہاں انہی قبروں میں ایک طرف ایک اور قبرہے جو عشق رسول کی داستان ہے .. یہ امام مالک کی قبر ہے... کہتے ہیں یہ ساری عمر مدینہ چھوڑ کر نہیں گئے کہ کہیں اور موت نہ آجاے... ایک بار نبی (ص) کی خواب میں زیارت ہوئی ... حکم ہوا حج پر جاؤ... تم واپس یہیں آؤ گے .. تو اس یقین کے ساتھ گئے کہ واپس مدینہ آنا ہے ... کہیں اور نہیں دفن ہونا ... یہ وہ عاشق ہیں جو مدینے کی گلیوں میں دیواروں کے ساتھ چپک کر چلتے تھے کہ کسی اسے راستے پر پاؤں نہ رکھ دوں جہاں حضور (ص) کے قدم مبارک لگے ہوں... اس پر بھی عالم یہ تھا ک پاؤں میں چپل نہیں پہنتے تھے ...
اور دوسری جانب کچھ اسے مسلمان تھے جو عاشق اتنے تھے ک سنہری جالیوں ک سامنے ہاتھ اٹھا کر نعرے لگا رہے تھا ... ہاتھوں میں چپل اس لئے تھی کہ کہیں غایب نہ ہوجاے ...!

House of Umar (r.a)


مسجد نبوی (ص) کے دروازے نمبر ٦ سے باہر نکلا تو سامنے مسجد غمامہ ہے . اسی طرف تھوڑا اور آگے بڑھا تو سعودی پوسٹ کا دفتر ہے .. جس سے متصل گلی میں ایک مسجد کا مینار نظر آرہا تھا ... قریب گیا تو مسجد کا رقبہ ١٠٠ گز کہ قریب ہوگا ... مسجد کچھ اس طرح چھپی ہوی تھی کہ کوئی اندر جا نہیں سکتا تھا ... کیوں کہ اسکے ساتھ ہی ایک بڑی بلڈنگ زیر تعمیر تھی... ایک صاحب سے معلوم ہوا کہ یہ مسجد اس جگہ خلافت عثمانیہ کے دور میں بنائی گئی تھی. یہ اس انسان کا گھر تھا جسکی ٢٢ لاکھ مربع میل پر حکومت تھی.

 جس کے رعب سے شیطان بھی ڈرتا تھا . جو بیت ا لمقدس میں فاتح کی حثیت سے داخل ہوا تو غلام اونٹ پر تھا اور رسی مالک کے ہاتھ میں تھی. یہ وہ حکمران تھا جو کسرہ کے محل کا مالک ہوسکتا تھا لیکن اسے گھر میں رہتا تھا جہاں نماز کی 4 صفیں نہیں بن سکتی تھیں.. وہ چالیسواں شخص تھا جس نے اسلام قبول کیا... لیکن اس کے بعد مسلمانوں نے کعبہ میں نماز پڑھی.. جس کی بیٹی زوجہ رسول (ص) ہیں ... جس کے لئے خود نبی (ص) نے فرمایا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا لیکن.."لا نبی بعدی" ...!