jashneazadi

ہزاروں پھول سے چہرے جھلس کر راکھ ہوے
بھری بہار میں کچھ اس طرح سے اپنا باغ جلا
ملا نہیں ہے یہ پاک وطن ہمیں تحفہ میں
جو ہزاروں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا


. یوم آزادی منانے والی قوم سے پوچھیں آزادی کیا ہے ؟ تو آپ کو بھونپو بجاتے کچھ بچے نظر اینگے. تھوڑا اور آگے جایں تو آپ کھلونا پستول لیے بچے دیکھیں گے . اور ان لڑکوں کی کیسے بھول سکتے ہیں جن کی بائیک کے سائلنسر یوم ا آزادی پر نکل جاتے ہیں . یہی تو آزادی ہے . اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کی آزادی ... پان اور مین پوری سڑک پر تھوکنے کی آزادی . بسکٹ کھا کر رپپر پھینکنے کی آزادی . کھلے عام سڑک پر گالیاں نکالنے کی آزادی اور بائیک پر ون ویلنگ کرنے کی آزادی .

 یہ آزادی ہی تو ہے جس نے ہمیں ١٤ اگست پر گاۓ ذبح کرنے کہ موقع دیا . یہ آزادی ہی تو ہے کہ ہم نے اپنے جانور سڑک اور گلیوں میں باندھ کر قربانی کا فرض ادا کیا . یہ آزادی ہی تو ہے کہ ہم ١٤ اگست کو بالیوڈ کی فلم . دیکھ سکتے ہیں . اور . یہ آزادی ہی تو ہے جس نے ہمیں قائد کے مزار پر خرافات میں مبتلا کیا 

یہ وطن قائد اعظم نے اس لئے بنایا تھا کہ مسلمان آزادی سے رہ سکیں لیکن ہم نے اس آزادی کہ غلط استعمال کیا . یہ وطن ان 25 لاکھ لوگوں کی قربانیوں کہ ثمر ہے جن کی کٹی پھٹی لاشیں ٹرینوں اور بیلوں میں اس وطن کی خاطر ایک مثال ہیں . لیکن ہمارے لیڈر کہتے ہیں کہ وہ لوگ بھاگ کر اے جنہیں اس ملک نے پناہ دی . کوئی ان سے پوچھے کہ وہ پناہ لینے والے لوگ ااس ملک کو بنانے میں لگ گئے اور آپ لوٹنے میں ؟

جب انکی یاد میں کیا ہوگا پرچم کو سر نگوں
جب انکی یاد کے جھنڈے یہاں گڑے ہونگے
دیکھ کر قومی منافقت کو رئیس
ارم میں قائداعظم بھی ہنس پڑے ہونگے

اس میں قصور لیڈروں کا بھی نہیں . ہم نے اپنے اجداد کی قربانیوں کو بھلا دیا . ہمنے اپنے وطن میں طاقتور کو الگ اور کمزور کو الگ قانون دیے . ہم نے اپنے نو جوانوں کی تربیت ہے ٹھیک نہیں کی

گنوا دی ہمنے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

آج ہمارے نوجوان اپنے وطن کے لیے نہیں اپنے لیے سوچتے ہیں . ہمارے لڑکوں کے ہیروز ابن قاسم اور صحابہ نہیں بلکہ بالیووڈ کے ہیروز ہیں .. آج اس ملک کے لڑکوں کا حال تو دیکھیں . 
ایک کان میں بالی ہے
تو دوسرا کان خالی ہے
شرٹ پی انکی جالی ہے
منہ میں بھری ہوئی چھالی ہے
عجب بے خیالی ہے

بقول اکبر الہ بادی

کالج نے یہ کیسے سانچوں میں لڑکوں کی طبعیت ڈھالی ہے

لڑکیوں کاحال بھی کچھ مختلف نہیں

جینز کی پینٹ ہے
پاپ کٹ بال ہیں
اور آنکھوں میں شرم و حیا کے بجاے نیلے پیلے لینس ہیں

حامدہ چمکی نہ تھی جب انگلش سے بیگانہ تھی
آج ہے شمع انجمن، پہلے چراغ خانہ تھی

کاش کے آج بھی اس قوم کو ہوش آجاے . ہم سندھی بلوچی پٹھان مہاجر ختم کر کے صرف پاکستانی بن جایں .. ہماری شہ رگ کشمیر ہمیں آواز دے رہا ہے . وہ پوچھ رہا ہے کہ پاکسان کے جوانوں تم نے میرے لئے کیا کیا ؟ کوئی ہے جواب ؟ کیا جواب دینگے ہم اپنے خدا اور اسکے رسول کو ؟ کچھ تو ہوش کریں ؟ جشن ا آزادی کو آزادی سے نہیں بلکے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کر کے منایں. اپنے اجداد کی محنت کو سمجھیں اور اپنے وطن کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں

No comments:

Post a Comment