ایک جنگل میں ہم رہتے ہیں
جہاں دریا خوف کے بہتے ہیں
تم رات کو باہر جانا مت
یہ امی ابا کہتے ہیں
جہاں دریا خوف کے بہتے ہیں
تم رات کو باہر جانا مت
یہ امی ابا کہتے ہیں
پھر کیوں امید پر جیتے ہو ؟
کانٹوں سے کپڑے سیتے ہو
نہیں تم کو خوف کیا مرنے کا؟
جو زہر کا پیالہ پیتے ہو
کانٹوں سے کپڑے سیتے ہو
نہیں تم کو خوف کیا مرنے کا؟
جو زہر کا پیالہ پیتے ہو
یہ درد ہے ان سب فتنوں کا
جس میں درد ہے اپنوں کا
کیا تیرا کوئی اپنا نہیں ؟
جو غم سہے تو اپنوں کا
جس میں درد ہے اپنوں کا
کیا تیرا کوئی اپنا نہیں ؟
جو غم سہے تو اپنوں کا
وہ کلیاں کیسے پھول بنیں؟
جوارمانوں کی دھول بنیں
وہ بادل کیسے برسیں گے ؟
جو آنکھوں کا محلول بنیں
جوارمانوں کی دھول بنیں
وہ بادل کیسے برسیں گے ؟
جو آنکھوں کا محلول بنیں
ساہیوال سانحہ ...
No comments:
Post a Comment